یقین اور عمل

جب نہیں ملتی کہی سے بھی سکوں کی دولت
تیری محفل تیرے دیوانے سجا لیتے ہیں
اور وقت کی قید نہیں ہیں یہ کرم کی باتیں
جب بھی سرکار کی مرضی ہو بلا لیتے ہیں‏ ﷺ

قابلِ احترام علامہ محمد اقبال نے کامیابی کے تین اصول بتائے فرمایا یہ تین تلواریں ہی اگر آپ کے پاس ہوں تو زندگی کا جہاد آپ کے لیے آسان ہو جائے گا اس راہ میں آنے والی مشکلات کو ہم آسانی سے پار کر سکتے ہیں..
١- یقین محکم:
یعنی آپکا یقین محکم ہونا چاہیے اگر ساری کائنات کا خلاصہ نکالا جائے تو وہ یقین ہوگا ، عبادات کا خلاصہ یقین ہے ، دین کا خلاصہ بھی یقین ہے اگر یقین کی دولت ہمیں مل گئی تو ہماری زندگی کامیاب ہے۔
ایک طرف یقین ہے تو دوسری طرف شک باز لوگ بے یقین نہیں ہوتے لیکن شک میں مبتلا ہوتے ہیں ۔۔

شک ہماری راہ میں ایسی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے کہ ہم کامیابی کی طرف گامزن ہی نہیں ہو پاتے دل میں وسوسے خیالات ہمیں آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔

لیکن یقین ایسی طاقت ہے کہ اگر کسی کو میسر آ جائے تو نہ ہی اسے کوئی آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے اور نہ ہی کامیاب ہونے سے ۔۔۔

یقین ملتا کیسے ہے؟
جب تک کوئی صاحب یقین نہ ملے۔۔
صاحب یقین کی صحبت میں بیٹھنے سے ہی یقین مل جاتا ہے جیسے صاحب یقین میسر آجائے اس کی منزلیں آسان ہو جاتی ہیں پھر راہ میں آنے والی رکاوٹیں رکاوٹ نہیں لگتیں ۔۔

صاحب یقین ہوتا کون ہے؟؟
ایک شخص ایک صاحب قال کے پاس آیا جو بہترین گفتگو فرماتے تھے حضور کامیابی کا کوئی طریقہ بتائیں کہ منزل تک پہچنا آسان ہو جائے روز کشتی کرکے دریا پار جانا پڑھتا ہے اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کوئی ایسا وظیفہ بتائیں کہ منزل آسان ہوجائے
فرمایا بسم الله الرحمن الرحيم پڑھا کرو اور چلتے جایا کرو وہ شخص صاحب یقین تھا سوچا اللہ کے کلام کا نسخہ ہے تو کیسے نہ کیا جائے روز عمل کرتا اور دریا پار کرلیتا کافی عرصہ گزر گیا ایک دن اسی صاحب قال کے پاس آیا اور کہا حضور آپکی دعوت کا اہتمام کیا ہے تشریف لے چلیں دریا کے کنارے پہنچیں تو صاحب قال گھبرا گیا کہ یہ پار کیسے ہوگا کوئی سواری بھی موجود نہیں ہے کہا حضور آپ نے ہی تو وظیفہ بتایا تھا میں تو روز ہی ایسے ہی آتا جاتا ہوں میرے پیچھے آجائیں جیسے ہی صاحب قال نے پاؤ ں دریا میں ڈالا وہ غوطے کھانے لگا کیونکہ اسکے پاس یقین نہیں تھا
یہی ہمارے معاشرے کا مسئلہ ہے صاحب قال تو بہت ہیں بڑی بڑی باتیں لوگ آسانی سے کر لیتے ہیں لیکن صاحب حال اور صاحب یقین بہت مشکل سے ملتے ہیں۔۔
یقین بہت بڑی منزل ہے غار کے داہنے پر دشمن کے پاؤں نظر آرہے ہیں انکی گفتگو سنائی دے رہی ہے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ‏ ﷺ یہ لوگ تو بالکل قریب آگئے ہیں تو حضور ‏ ﷺ
‏نے فرمایا :
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّـٰهَ مَعَنَا ○
غم نہ کھائو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے-
سورۃ التوبۃ(40)
اے صدیق رضی اللہ عنہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔۔
یہ یقین ہی کی دولت تھی کہ صاحب یقین کے ساتھ رہتے رہتے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یقین بڑھ چکا تھا۔۔

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ دریائے نیل میں ایک خط ڈالتے ہیں تو وہ رواں ہوجاتا ہے یہ صرف یقین ہی سے ممکن تھا۔۔

دوسرا اصول
عمل:
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
“یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم “
اگر یہ دونوں چیزیں آگئی یقین محکم اور عمل تو کوئی چیز مشکل نہیں رہے گی اگر کوئی بھی عمل تسلسل کے ساتھ کیا جائے تو کام ہو کر رہے گا۔۔
ایک شخص کسی بابا کے پاس گیا اور کہا حضور کوئی اسم اعظم بتا دیں کہ میری منزل آسان ہو جائے آپ نے کہا پڑھو ” الف” بس جاؤ اور اسے پکاؤ اور یہ جب یہ پک جائے تو آجانا کہا حضور یہ پکے گا کیسے کس آنچ پر؟؟
فرمایا: بس اسے دہراتے جاؤ اور نہر پر پاؤں رکھ کر دیکھنا اگر اندر جائے تو سمجھ جاؤ کہ تمھارا الف ابھی پکا نہیں ہے کئی سال گزر گئے ایک دن پاؤں رکھ کر دیکھا تو پاؤں نہ ڈوبا کہا حضور ‘الف’ پک گیا اور مجھے راز مل گیا مقصد تسلسل تھا
ایک بیج بویا جائے تو آہستہ آہستہ درخت بنتا ہے پھر پھل لگتے ہیں پھر کہی جاکر باغ بنتا ہے یہ نہیں ایک کام شروع کیا اور چند مہینے بعد ترک کر دیا اور دوسرا شروع کر دیا نہ ادھر کے رہے اور نہ ادھر کہ۔۔
ریسرچ بتاتی ہے :
اگر دس سال یا دس ہزار گھنٹے تک ایک کام کیا جائے تو سمجھے وہ آپ میں گھل چکا ہے پھر کام خود بتائے گا کہ اسکے رموز کیا ہیں۔۔
حکیم لقمان فرماتے ہیں
“جب میں راستے سے گزرتا تھا تو جڑی بٹیاں خود کہتی تھی او میں اس کام کے لئے بنی ہوں “
جب ہم کوئی کام تسلسل سے کرتے ہیں ہم اپنے کام میں اس قدر منہمک ہو جاتے ہیں کہ کام خود بتاتا ہے کہ میں اس کام کے لیے ہوں۔۔

اللہ کو وہ عمل سب سے زیادہ پسند ہے جو اگر چہ تھوڑا ہو لیکن تسلسل کے ساتھ کیا جائے استقامت کرامت سے بڑی ہے ایک شخص جب ولی کے پاس پہنچا کہ انکی کرامات دیکھے لیکن کافی عرصہ تک کوئی کرامت نظر نہ آئی تو ولی سے اجازت چاہی
انھونے فرمایا کیا تم نے کبھی مجھے فرائض یا واجبات چھوڑتے دیکھا کہا نہیں فرمایا بیٹا اگر کسی کو ہوا میں اڑتا یا سمندر میں تیرتا دیکھو اور اسے تاریک شریعت پاؤ تو وہ ولی نہیں ہوسکتا ولایت کی علامات یہ نہیں کہ اڑتا ، تیرتا نظر آئے کرامت استقامت ہے تسلسل کے ساتھ عمل کرنا۔۔
کامل یقین کیا ہے؟
جب بھروسہ میں شک کا کوئی عنصر شامل نہ ہو تو یہی کامل یقین ہے بھروسہ کر کے بھی اگردل میں خدشات پیدا ہوں, تو یہ کامل یقین نہیں ہے اللہ پر یقین کے لیے ضروری ہے کہ اُسکی معرفت حاصل ہو ہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ پانچ وقت ہمیں اپنے گھر بلاتا ہے اور ہمارے آنے سے راضی ہوتا ہے جب ہم دنیا سے غافل ہو کر اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اللہ ہم سے کتنا قریب ہے اور ہر لمحہ، ہر وقت ہمارے ساتھ ہے اللہ کے ساتھ ہونے کا احساس ہمیں دنیا کی ساری پریشانیوں سے آزاد کر دیتا ہے جب ہم اپنا ہر عمل یقین کے ساتھ کریں گے تو ہمیں روحانی سکون اور کامیابی حاصل ہو گی اگر نتیجہ ہماری سوچ کے برعکس بھی ہو تو اسے اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کرنا چاہیئے بیشک کامیابی اور سکون اللہ پر یقین اور اعتقاد میں پنہاں ہے-
انسان اپنے دل میں خد شات پیدا کر کے دائمی خوشی سے محروم ہو جاتا ہے خدشات کو دل سے نکال کر اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھا جائے, اپنے معاملات کو اُس کے سپرد کر دیا جائے اللہ ہمیں ایمان میں استقامت دے اور ہم اُس کے ساتھ یقین اور بھروسہ والا رشتہ استوار کریں آمین