:مقاطعہ قریش اور حضور ﷺ کا صبر و استقلال
صحابہ کے حبشہ جانے کے بعد کفار مکہ نے دیکھا کہ ان کے صفیر بھی ناکام لوٹ آئے اور کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تو اب آگے کیا کرنا چاہئے ؟؟
اصحاب وہاں ہیں اور کے نبی یہاں موجود ہیں تو کفار مکہ نے حضور ﷺ کے قتل کے منصوبہ بنانے شروع کردیے ۔۔
جب یہ خبر جناب ابو طالب کو پہنچی تو اپنے قبیلے بنو ہاشم کو جمع فرمایا اور تمام معاملات سے آگاہ کیا ہر شخص نے یہ جان ہو کر کہا ” ہم سب اپنی جانیں دے دیں گے لیکن جان دوعالم ﷺ پر حرف بھی نہیں آنے دیں گے”۔۔
شعب ابی طالب دو پہاڑوں کے درمیان ایک جگہ تھی وہاں پورے قبیلے نے پڑاؤ ڈال دیا تاکہ جان دوعالم ﷺ کی حفاظت کر سکیں۔۔
پھر کفار مکہ نے بنوہاشم کے خلاف ایک معاہدہ تحریر کیا کہ جب تک یہ خانوادہ محمد (ﷺ) کو ان کے حوالہ نہیں کر دیتا، قریش کا کوئی خاندان بنوہاشم سے نہ تو شادی اور نکاح کا تعلق جوڑے گا، نہ ان سے تجارت کرے گا، اور نہ ان سے میل جول رکھے گا چالیس سردار اس معاہدے پر متفق تھے یہ معاہدہ تحریر کر کے خانہ کعبہ کے اندر لٹکا دیا گیا اور کہا یہ معاہدہ جب ختم کیا جائے گا جب جان دوعالم ﷺ کو ہمارے حوالے کیا جائے گا۔۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات باہر نکلا تو میرے پاؤں کے نیچے چمڑا آگیا میں نے اسے اٹھایا اور ابال کر اس کا شوربا پی لیا
اس قدر مشکل وقت جان دوعالم ﷺ نے کاٹا لیکن کبھی شکوہ نہیں کیا اور امت کو بھی یہی پیغام دیا کہ اگر کبھی آزمائش آ بھی جائے تو شعب ابی طالب کو یاد کر لینا۔۔
حشام بن عمرو خامشی سے گھاٹی میں گیا اور وہاں کا حال دیکھ کر بے حد افسردہ ہوا اور دوسرے سرداروں کے پاس آ کر کہا ہمارے بچے کھا پی رہے ہیں آرام و سکون سے رہ رہے ہیں اور بنی ہاشم کے بچوں کو دیکھو تم لوگوں کو شرم نہیں آتی ایک ایک کر کے بہت سے سرداروں کو اپنے ساتھ اور کہا کہ کہ دن ہم حرم میں جائیں گے تو حشام بن عمرو سب سے پہلے بنو ہاشم کی بات کریں گے اور ہم انکی تائید کریں گے۔۔
دوسرے دن محفل جمی تو سارے سرداروں نے تائید کی تو ابو جہل ڈر کر بیٹھ گیا دوسری جانب سے جناب ابو طالب بھی تشریف لے آئے پہلے قوم کے لوگوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اس کے بعد تائید الہی بھی آن پہنچی جناب ابو طالب نے فرمایا میرے بھتیجے نے مجھے ایک بات فرمائی ہے کہ جو معاہدہ آپ لوگوں نے لکھا تھا وہ اب ختم ہوچکا ہے دیمک نے وہ پورا معاہدہ کھا لیا ہے صرف اللہ کا نام باقی ہے کہا ایسا نہیں ہوسکتا وہ تو ہم نے بہت محفوظ کرکے رکھا ہے۔۔
” جناب ابو طالب نے فرمایا اگر میری بات سچی ہوئی تو یہ معاہدہ یہی ختم کر دیا جائے گا اور اگر میری بات غلط ہے تو میں خود اپنے بھتیجے کو پکڑ کر تمھارے حوالے کروں گا”
سب نے کہا ہمیں منظور ہے۔۔
جب معاہدہ لایا گیا تو جیسے میرے حضور ﷺ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔۔
پھر معاہدہ ختم ہوا تھا تو جان دوعالم ﷺ نے سفر طائف شروع کیا اور جب ظلم حد سے بڑھا تو خالق کائنات نے اپنے محبوب کو شرف معراج عطاء کیا۔۔
مشکل ختم ہونے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے کہ جب آپ صبر و استقامت کے ساتھ اس مشکل سے گزر جاتے ہیں تو پانسا پلٹ جاتا ہے۔۔
غم سبھی راحتوں تسکین سے ڈھل جاتے ہیں۔۔!!
جب کرم ہوتا ہے حالات بدل جاتے ہیں۔۔!!
ہر مسلمان کا ایمان ہونا چاہیے کہ ایک دن آزمائش ختم ہوجاتی ہے ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے کیونکہ خالق کائنات کسی سے ناانصافی نہیں کرتا بس زبان سے شکوہ نہیں کرنا۔۔
آقا کریم علیہ سلام کی سیرت ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اس پر عمل کریں اور دوسروں کو پہنچائیں