خواجہ غریب نواز

ایسے تو سارے ہی مہینے الله کے ہیں تمام دن ربِ کائنات کے ہیں ہر ہر لمحہ میرے الله کے لئے ہے لیکن ان تمام مہینوں میں سے جس مہینے کو الله نے اپنا مہینہ کہا وہ وہ رجب المرجب ہے۔
رجب ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کو قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے

“بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہے جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔
(سورہ توبہ ، القرآن)

جب بھی یہ مہینہ آتا میرے حضور ‏ ﷺ دعا فرماتے:
“أَللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانْ
یا الله ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطاء فرما اور ہمیں خیر سے رمضان نصیب فرما۔۔
حضور‏ ﷺ نے فرمایا:
رجب شهر الله وشعبان شهري، ورمضان شهر أُمّتي “
رجب اللہ کا مہینہ ہے ، شعبان میرا مہینہ اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے..
مورخین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ رجب بیج بونے کا مہینہ ہے شعبان پانی دینے کا مہینہ ہے اور رمضان المبارک فصل کاٹنے کا مہینہ ہے۔۔
اس مہینے میں نیکیوں کا بیج بویا جاتا ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں معراج ہوئی، یہی مہینہ جس میں نمازوں کو فرض کیا گیا۔۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رجب میں اپنے تمام کاموں سے فراغت اختیار کرلیتے کئی ایسے صحابہ کرام تھے جو رجب، شعبان ، رمضان تینوں مہینوں میں اعتکاف فرماتے روزے رکھتے، اور ڈھیروں نیکیوں کا آغاز شروع کر دیا جاتا تھا۔۔۔
اس مہینے کو ایک خاص نسبت حاصل ہے خواجہ خواجگان ، ہندلوی، عطاء رسول‏ ﷺ خواجہ معین الحق و دین چشتی اجمیری رحمته الله علیه کے ساتھ۔۔۔۔
اس مہینے میں چھٹی شریف منائی جاتی ہے اور کیوں نہ منائی جائے کہ ہم تک دین انہیں بزرگوں کے توسط سے پہنچا ہے حضور غریب نواز کو بشارت دی گئی کہ ہندوستان جاؤ اور دین کی تبلیغ کرو ہندوستان کہ حالات انتہائی ناساز تھے ہر طرف سے شرک اور کفر کی بو آتی تھی آپ کو حکم ہوا کہ وہاں کلمہ حق کو پھیلاؤ توحید کا چرچہ کرو غریب نواز وہاں تشریف لے گئے چند ایک ساتھی ساتھ ہے ۔۔

حضرت خواجہ غریب نواز ساتھیوں کے ساتھ اجمیر پہنچے تو سایہ دار درختوں کے نیچے قیام فرمایا، کچھ ہی دیر بعد ساربان بھی آگئے اور آپ سے اس جگہ سے ہٹنے کو کہا آپ نے فرمایا ،اونٹوں کو دوسری جگہ بٹھادو مگر ساربان نہ مانا اور کہا کہ راجہ کے اونٹ یہاں بیٹھیں گے ۔ آپ نے فرمایا ’’ ہم تو اٹھتے ہیں ، تمھارے اونٹ بیٹھے رہیں گے‘‘ دوسرے دن جب ساربان نے اونٹوں کو اٹھانا چاہا تو نہ اٹھے،مجبور ہوکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے گستاخانہ سلوک کی معافی چاہی ، آپ نے مسکرا کر فرمایا الله کے حکم سے تمہارے اونٹ اٹھ جائیں گے ساربان جب واپس آئے تو دیکھا کہ اونٹ کھڑے ہوگئے ہیں۔

حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کو جب اونٹوں کے ساربان نے وہاں سے اٹھایا تو انا ساگر پر آگئے جس کے ہر چہار جانب بڑے بڑے مندر اور بت موجود تھے ،انا ساگر پر آنے کے بعد اس کے پانی کو وضو اور غسل کے لیے استعمال کرنے لگے مگر کچھ لوگ خرافاتی ذہن رکھنے والوں کو یہ گوارا نہ ہوا اور راجا سے آکر کہا کہ غیر مذہب کے کچھ لوگ ہماری پرستش گاہ کے قریب آٹھہرے ہیں ۔ راجا نے حکم دیا کہ سب کو وہاں سے نکال دیا جائے چنانچہ ایک ہجوم کی صورت میں وہ حملہ آور ہوئے مگر تصرفاتِ خواجہ غریب نواز کے سامنے ان کی ایک نہ چلی ، سلطان الہند نے ایک مشت خاک لے کر ان کی طرف پھینکی تو جس پر پڑی وہیں بے حس و حرکت اور منجمد ہوکر رہ گیا۔ پھر تیسرے روز راجا اور تمام اہلِ شہر تالاب پر پوجا کے لیے جمع ہوئے ، رام دیو مہنت ایک جماعت کے ساتھ آپ کو وہاں سے ہٹانے کو آیا مگر نگاہِ خواجہ جب اس پر پڑی تو جسم پر لرزہ طاری ہوگیا ۔ اور قدموں میں گر کر مشرف باسلام ہوگیا ۔ اب حضرت خواجہ نے اپنے مرید کے ذریعے ایک کاسہ انا ساگر سے پانی بھروایا۔ کاسے میں انا ساگر کا پورا پانی اسی ایک کاسے میں جمع ہوگیا اور پورا انا ساگر خشک ہوگیا، اہلِ شہر اور جانور پیاس سے بے چین ہوئے اور معافی طلب کی تو آپ نے پانی واپس کردیا پھر حسبِ سابق انا ساگر لبالب بھرگیا…

‏میرے غریب نواز اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ فقط اللہ کے دین کی اشاعت کے لئے وہاں گئے تو کیسے اللہ اپنے بندے کو چھوڑ دیتا اللہ نے انکی مدد فرمائی کہ پورا انا ساگر اس کوزے میں آگیا الله اپنے پیاروں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔۔

حدیث :
بندہ جب اپنے رب کا قرب پالیتا ہے تو زبان عبد کی ہوتی ہے اور بولنا خدا کا ہوتا ہے، نگاہ عبد کی ہوتی ہے دیکھنا خدا کا ہوتا ہے۔۔

یہ سب دیکھ کر بادشاہ پتھورا بہت گھبراگیاتھا کہ اب اس کی حکومت کا تختہ پلٹ جائے گا ، کیونکہ اس کی ماں کاہنہ تھی اور بارہ سال قبل اس نے اپنے بیٹے کو خبردار کیا تھا ’’کہ ایک مردِ درویش فلاں حلیہ کا اس ملک میں آکر تیرے اور تیری سلطنت کے زوال کا باعث ہوگا‘‘گھبراہٹ کے عالم اس نے جادوگروں کو بلایا اور اس وقت کا سب سے بڑا نامور اور خوفناک جادو گر جوگی جیپال کو بطورِ خاص مدعو کیا ۔ وہ مرگ چھالا(ہرن کی بالوں سمیت کھال)پر ڈیڑھ ہزار چیلوں کو ساتھ لیے بہ سرعت اجمیر پہنچ گیا اور ایک خوفناک قوت کے ساتھ مقابلہ کے لیے بڑھا، اس طرح کے جادو کے شیر، اژدہے ساتھ ہیں اور سب آگ کے گولے پھینکتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔ مخلوقِ عظیم ساتھ تھی،سلطان الہند کے ساتھیوں نے جادو کا یہ خوفناک منظر دیکھا تو گھبرا گئے مگر آپ نے سب کےگرد حصار کھینچ دیا، اب ایک طرف سے سانپ بڑھنے شروع ہوئے ، دوسری طرف سے شیر چلے اوپر سے ، سامنے سےآگ برسنی شروع ہوئی ، دہشت ناک سماں تھا،اہلِ شہر تک لرز رہے تھے، مگر جادو کے اثرات حصار تک ختم ہوجاتے تھے ،سلطان الہند نماز میں تھے جس کے بعد آپ نے ایک مٹھی خاک جو پھونک کر پھینکی سارا طلسم فنا ہوکر رہ گیا۔ اب میدان صاف تھا اور جے پال شکست خوردہ کھڑا تھا مگر اب بھی شقاوتِ قلبی گئی نہ تھی ۔ جادو کے ذریعے پرواز کا ملکہ حاصل تھا اس نے اڑنا شروع کیاتو فضا کی بلندیوں میں جا گھسا مگر خواجہ غریب نواز نے اپنی کھڑاون کو اشارہ کیا ،کھڑاون اڑی اور جے پال کے سر پر مارتے ہوئے زمین پر لے آئی، اب کوئی چارہ نہ تھا قدموں میں گرا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا ۔ اور اس کا اسلامی نام عبد اللہ ساحری رکھا گیا۔
یہ تھی غوث اعظم کی کرامات کرامت ہوتی ہی یہی ہے جو عقل میں نہ آئے
علامہ اقبال:
“اج بھی ہو گر ابراھم سا ایماں پیدا”

ہمارا یقین کمزور ہے کمی ہم میں ہے ورنہ ہمارا رب ، رسول اور کتاب بھی وہی ہے بس ان جیسے یقین اور ایمان کی ضرورت ہے۔۔

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فاتح مصر کہلاتے ہیں جب مصر فتح ہوا اس وقت آپ مصر کے گورنر تھے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی حکومت تھی اس دوران دریائے نیل خوش ہوگیا ہر شخص بے چین ہو گیا اس دور کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ جب جب دریا خشک ہو جوان خاتون کو دلہن بنا کر اس میں ڈالتے اور دریا رواں ہوجاتا جب مسلمانوں کی حکومت آئی تو عمرو بن العاص نے فرمایا ہمارا دین ان خرافات کی اجازت نہیں دیتا کہا اگر دین اس کی اجازت نہیں دیتا تو ہم نقل مکانی کرتے ہیں کیونکہ اس کے علاؤہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا آپ نے ایک خط لکھا امیر المومنین کو کہ آپ بتائیں ہمارا دین کیا کہتا ہے کیا کرنا چاہئے قربان جائیں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے آپ نے ایک خط لکھا اور کہا جاؤ اسے دریا میں رکھ دو جب عرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے خط کھولا تو اس میں لکھا تھا:
“یہ خط اللہ کے بندے عمر کی طرف سے! اے دریائے نیل اگر تو اللہ کے حکم سے جاری ہوتا ہے تو میں اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ تجھے جاری کردے اور اگر تو اپنی مرضی سے چلتا ہے تو ہمیں تیری حاجت نہیں..!!
راوی کہتے ہیں کہ جیسے ہی وہ خط دریا میں رکھا گیا اتنا پانی آیا کہ معمول سے زیادہ اونچی لہرے تھیں اور وہ دریائے نیل آج تک جاری وساری ہے۔۔
حضور غریب نواز نے نفس مطمئنہ کی پہچان بتائی آپ فرماتے ہیں کہ نفس مطمئنہ کس کا ہے وہ لوگ ہیں کون ؟
وہ جو ان چار باتوں پر عمل کرتے ہیں۔۔
١- درویشی میں بھی توانگری ہو۔
(یعنی ہے فقیر لیکن فقیری کو بیچتا نہیں ہے خودی کو قائم رکھتا ہے)
علامہ اقبال:
” خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر”
فقیر اور بھکاری میں فرق کیا ہے؟
بھکاری وہ ہوتا ہے جو در در پہ جاتا ہے اور فقیر ایک در کا ہوکے رہتا ہے بھکاری دنیا داروں کے در پہ جاتا ہے اور دنیا دار فقیر کے در پہ آتے ہیں، فقیر کے کاسے سے دنیا پلتی ہے اور فقیر اپنا کاسا لئے لوگوں کے پاس جاتا ہے
٢. بھوک میں آسودہ نظر آئے ۔
(اندر بھوک موجود ہے لیکن ظاہر نہ کرے)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اصحاب صفاء میں رہتے تھے کہتے ہیں کبھی کبھی ایسی بھوک لگتی کہ میں مسجد نبوی میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہوتا تھا لیکن کسی سے جا کے سوال نہیں کرتا تھا میرے سرکار نے تو پیٹ پر پتھر باندھے ہم نے تو وہ بھوک دیکھی ہی نہیں بلکہ مجھے یاد ہے شاید آپ کو بھی یاد ہو پہلے کہا جاتا تھا کولسٹرول اور شوگر امیروں کی بیماری ہے آج یہ غریبوں میں نہیں ہے ؟ لوگوں کا کھانا کھا کھا کے شوگر بڑھ چکا ہے ہم کتنا کھاتے ہیں ہمیں خود بھی نہیں پتا ہو گا اور ذرا سا کہیں کبھی کوئی ایسا معاملہ آ جائے تو ہم تو بھوک بھوک کرنا شروع کر دیتے ہیں۔۔
٣.غم میں بھی مسرور نظر آئے۔۔
تکلیف خدا کی طرف سے ہے تو لوگوں سے اسکا اظہار نہ کرے

والقدر وشره من الله تعالى
ہر اچھی اور بری چیز خدا کی طرف سے ہے۔۔
حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا ایک مرتبہ جارہی ہے ان سے عقیدت رکھنے والی خاتون کو دیکھا چلی آرہی ہے سر پر پٹی بندھی ہوئی ہے فرمایا یہ کیوں؟ کہا سر میں درد ہے فرمایا کہ ذرا سا معمولی درد ہوا تو تم نے آکے ساری دنیا کو پتہ لگنے کہ لئے پٹی باندھ لی کہ تمہارے سر میں درد ہے کبھی شکر کی پٹی باندھی تم نے؟ کبھی شکر کی پٹی بھی باندھ کر گھوما کرو ۔۔

ہم بھی آج یہی کر رہے ہیں جب تک سو لوگوں کو پتہ نہ چلے ہمیں چین نہیں آتا اب تو لوگ فوراً اسٹیٹس لگا دیتے ہیں جب کوئی تکلیف آ ہی گئی ہے تو رب کو بتائیں لیکن ہمارے ہوں ایسا نہیں ہوتا ۔۔۔

٤- دشمنوں کے ساتھ بھی دوستانہ برتاؤ رکھو۔۔
ہم تو اپنوں کے ساتھ نہیں کرتے ساس کا بہو کے ساتھ دوستانہ تعلق نہیں ہوتا بہو کا ساس کے ساتھ نہیں شوہر کا بیوی کے ساتھ نہیں ہے پڑوسی کا پڑوسی کے ساتھ دکاندار کے برابر والے دکاندار سے دشمنی ہے ہمارا تو بھائی کا بھائی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہے۔۔

میرے حضور‏ ﷺ کی تعلیم تھی نا معاف کرنا آپ نے کیسے معاف فرمایا آپ کی سیرت سے سیکھا کیا ہے ؟؟ سب سے بڑی تعلیم ہی معاف کرنا دشمن کو بھی معاف کر دو دشمن کونسا والا جو اللہ رسول کا دشمن ہے وہ ہمارا بھی دشمن ہے لیکن آپ کی ذات کو کسی نے کوئی نقصان پہنچایا ہے تو معاف کریں۔۔
یہ چار علامات ہیں کہ جو شخص راہ سلوک پر چلنا چاہتا ہے جس کا نفس ، نفس مطمئنہ بننا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ ان چار باتوں پے عمل کریں۔۔

میرا رب آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے
آمین