منگتے ہیں کرم ان کا صدا مانگ رہے ہیں
دن رات مدینے کی دعا مانگ رہے ہیں
کم مانگ رہے ہیں ، نہ سوا مانگ رہے ہیں
جیسا ہے غنی ویسی عطاء مانگ رہے ہیں
یوں کھو گئے سرکار کے الطاف و کرم میں
یہ بھی تو نہیں ہوش کہ کیا مانگ رہے ہیں
اے درد محبت ذرا اور فضوں ہو
دیوانے تڑپنے کی ادا مانگ رہے ہیں
منگتے ہیں کرم ان کا صدا مانگ رہے ہیں
دن رات مدینے کی دعا مانگ رہے ہیں
ہر طرف رونقیں پھیلی ہیں محمود غزنوی کا دربار سجا ہے تمام لوگ تشریف فرما ہیں وزراء بھی بیٹھے ہیں سائلین بھی بیٹھے ہیں بادشاہ سلامت کے برابر میں تھال رکھا ہے تھال ہیرے جواہرات سے بھرا ہے قیمتی تحائف اسمیں موجود ہیں بادشاہ بڑا خوش ہے بادشاہ نے تشت اٹھایا اور اس کو اچھال دیا اور ہر طرف ہیرے موتی بکھر گئے اور فرمایا کہ جس کا جی چاہے اٹھالے بادشاہ کا یہ کہنا تھا کہ ہر شخص تشت کی طرف لپکاجس کے ہاتھ میں جو آیا اس نے اٹھالیا بادشاہ نے باہر کی راہ لی چلتے چلتے پیچھے مڑ کر کیا دیکھتا ہے کہ۔۔
اک ایاز نامی شخص پیچھے پیچھے آرہا ہے ۔۔
بادشاہ: ایاز کیا معاملہ ہے ہیرے جواہرات موتی ہر چیز بکھری ہے میں نے تو سب کو کہا ہے کہ اٹھالیں سب میں تم بھی شامل ہو کیوں نہیں اٹھاتے؟؟
ایاز : بادشاہ سلامت میرے نزدیک یہ چیزیں بے وقعت ہیں معنی نہیں رکھتی مجھے ہیرے نہیں مجھے تو ہیرے والا چاہییے ۔۔۔
اصل راز ہی یہی ہے کہ ہیرے والا مل جائے اگر ہیرے والا مل گیا تو سمجھو سب میسر آگیا ۔۔
لیکن ہماری کوتاہی ہے کہ ہم یہ راز ہی نہ سمجھ پائے ہم اللہ سے ہر چیز تو مانگتے ہیں کہ ہر ہر نعمت عطاء کردے بےشک اللہ ہی سے مانگنا چاہئے اسی سے لو لگانی چاہیے اللہ خود فرماتا ہے مجھ سے مانگو میں عطاء کروں گا لیکن ہماری کم عقلی ہے کہ ہم اللہ کے سوا اللہ سے سب مانگ لیتے ہیں اگر اللہ سے اللہ ہی کو مانگ لیا جائیں؟؟ تو ہر چیز ہمیں خود با خود مل جائے گی مانگنے کی ضرورت ہی درپیش نہیں آئے گی۔۔
تجھ سے تجھی کو مانگ کے اچھا رہا منگتا تیرا ۔۔
ہمیں خدا کا قرب مانگنا ہی اس لیے چاہیے کہ ہمیں رب مل جائے اس کے نبی ﷺ کا عشق مل جائے تو ہمارے سارے کام بن جائیں گے زندگی آسان ہو جائے گی۔۔
جانتے ہیں دنیا اور آخرت کی مثال کیسی ہے؟؟
پرندے کی سی۔۔
یہ دنیا اور اس کی مادی اشیاء صرف پرندے کا سایہ ہیں
اور آخرت پرندہ ہے۔۔
اگر کوئی شخص سائے کو پکڑنے کی کوشش کرے تو ساری ہی زندگی یہ سایہ اسکے ہاتھ نہیں آسکتا ساری زندگی انسان بھاگتا ہی رہے گا۔۔
دنیا کا معاملہ یہی ہے:
اللہ ارشاد فرماتا ہے:
*وَمَا الْحَيَاةُ الـدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (185)
اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کی پونجی کے سوا اور کچھ نہیں* ۔
جو دنیا کہ پیچھے بھاگتا ہے دنیا اسکو اپنے پیچھے بھگاتی رہتی ہے اور جو پرندہ کو پکڑنے کی کوشش کرے اور پرندہ اس کے ہاتھ آجائے تو سایہ خود با خود ہاتھ آجاتا ہے یعنی اگر انسان آخرت کی کوشش میں لگا رہتا ہے تو دنیا خود با خود اس کے پاس چل کر آجاتی ہے ۔۔
ہم دنیا میں جب کوئی بھی کام کرتے ہیں ہر چیز اپنی غرض کے لیے کرتے ہیں یہاں تک کے بندہ عبادت بھی کرتا ہے اسکے پیچھے بھی غرض ہے جب مشکل آئی تو تہجد کے لئے سر جھکا دیا
امام زین العابدین فرماتے ہیں:
“جو جنت کی غرض سے عبارت کرے وہ تاجر ہے ، جو جہنم کے خوف سے عبادت کرے وہ غلام ہے آزاد تو وہ ہے جو خالص صرف اللہ کے لیے عبادت کرے ”
ہم کہتے ہیں نا :
أنا لله و ان الیه راجعون
“بے شک ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے”
یہ کلمات صرف فوتگی پر کہنے کے لیے ہی نہیں ہے جب اسی کی طرف لوٹنا ہے اور ہم اس ذات کے ہی ہیں تو کیوں نہ دنیا میں ہی اللہ کی طرف لوٹ جایا جائے یقین جانیں اگر دنیا میں اسکی طرف لوٹ گئے تو سارے کام بن جائیں گے۔۔۔
اگر میں اس کی اور وضاحت اس واقعہ سے کروں کہ ایک گاؤں میں چوری ہوئی تو آوازوں سے گھر والے جاگ گئے اور پورا گاؤں جمع ہوگیا لوگ اس کی طرف لپکے وہ آگے دوڑتا چلا گیا اور لوگ اس کے پیچھے ہو لیے چور کچھ سمجھ نہ پایا نظر اٹھائی تو دیکھا سامنے مسجد ہے دیوار پھلانگ کر مسجد میں جا پہنچا اور اپنی چادر اور نقاب ایک طرف ڈال دیئے اور جھوٹی نیت باندھ کر کھڑا ہوگیا ایک شخص نے اندر جھانکا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے بولا کہی یہ ہی تو چور نہیں ہے؟
دوسرے شخص نے کہا تمھارا دماغ خراب ہے ایک اللہ کا نیک بندہ تہجد ادا کر رہا ہے تم اسے چور کہہ رہے ہو
چور: مولا مجھے رسوائی سے بچا لے اور کہا مولا میں نے تو جھوٹی نیت باندھی تھی لیکن تو نے مجھے رسوائی سے بچا لیا تو نے میری پردہ پوشی فرمائی گر میں حقیقت میں تیری طرف آجاؤں تو آپ مجھے کیسے کیسے انعامات سے نوازیں گے؟
تو رب سے ہمارا تعلق ایسا ہوگا تو ساری چیزیں خود با خود آ جائیں گی ایسا کیسے ممکن ہے کہ خالق سے دوستی ہو اور وہ خالق اپکو در در پر بھیجے
اک سجدہ جیسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اگر اللہ کسی پر اپنا کرم کر دے حضور ﷺ خواب میں آجائیں اور ہم سے پوچھیں کہ اے! میرے امتی بتا تجھے کیا چاہیے ؟
تو سب اپنے اپنے مسائل پیش کر دیں گے لیکن قرباں جاؤں صحابہ اکرام پر اک صحابی حضرت ربیعہ حضور ﷺ کی غلامی میں رہے جب حضور ﷺ تہجد کے لئے اٹھتے تو آپ انھیں پانی گرم کرکے دیتے حضور ﷺ کی خدمت کرتے ایک دن دریائے رحمت جوش میں آگیا حضور ﷺ نے فرمایا صل ربیعہ؟ مانگ کیا مانگتا ہے عاشق نبی ہیں جب دیکھا کہ دریائے کرم جوش میں ہے تو کہا حضور ﷺ جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں جنت نہیں مانگی جنت والا مانگا یعنی جنت بھی ملی اور جنت والا بھی ملا یہ صحابہ کرام کا طریقہ تھا یہ ان کی تعلیمات تھیں ۔۔
میرے دوست ہیں اقبال میمن صاحب میں نے کہا کہ کیا دعا مانگتے ہیں کہا میں ایک دعا ہر نماز میں مانگتا ہوں کہ جب تک میری حیات ہے میں کھڑے ہو کر نماز پڑھوں یعنی نماز ،صحت و عافیت سب چیزیں ساتھ مل گئی ایسی دعائیں مانگیں جو تاحیات تک کہ لیے کافی ہوں ۔۔۔
دنیا کہ ہر ہر معاملہ میں اچھا بننے کی کوشش کریں ایک دوسرے کو سراہنے کی کوشش کریں اگر آج کی عورت شوہر سے اشیاء مانگنے کے بجائے اسے مانگ لے تو وہ گھر جنت بن جائے شوہر کے ساتھ چیزیں بھی میسر آجائیں گی۔
حدیث
نیک عورت کی تین علامات ہیں:
١- جب شوہر اس کی طرف نظر کرے وہ مسکرا دے۔
٢-جب اسے کسی کام کا کہے تو فوراً باخوشی راضی ہو جائے ۔
٣- شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی امانت کی حفاظت کرے۔
یعنی اس کی عزت و سامان کی بھی حفاظت کرے۔
ارشاد باری تعالیٰ :
هُنَّ لِبَاسٌ لَّـكُمۡ وَاَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ:
وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس،
( سورہ البقرہ ١٨٧)
ہر سرد و گرم حالات میں ایک دوسرے کی حفاظت کریں گے تو گھر خود ہی جنت بن جائے گا دونوں ایک دوسرے کو عزت دیں کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے کبھی نہیں بجتی اور دونوں میاں بیوی گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ہے دونوں ساتھ چلیں گے تو ہی گاڑی آگے جا سکتی ہیں تو گھر کا ماحول اچھا کریں
کیونکہ:
ہمیں ہیرے نہیں ہیرے والا چاہئے