الله سے وفاداری 

میاں محمد بخش فرماتے ہیں
“خش خش جناں قدر نہ میرا، میرے صاحب نوں وڈیائیاں
میں گلیاں روڑا کوڑا، تے محل چڑیا سائیاں۔۔
میری تو اتنی بھی اوقات نہیں میرا صاحب ہی اونچا ہے
میں تو گلیوں کا کچرا ہوں یہ میری عزتیں ہی مالکوں کی وجہ سے ہیں۔۔

اللہ سے تعلق مضبوط رکھنا ہے کبھی اس سے دوری اختیار نہ کرنا اس کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنا کیونکہ اللہ کے سوا کوئی مخلص نہیں ہوتا۔۔

اللہ کریم نے قرآن میں گھوڑے کی صفات بیان کی۔۔

وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا (1)
ان گھوڑوں کی قسم جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں۔

فَالْمُوْرِيَاتِ قَدْحًا (2)
پھر (پتھر پر) ٹاپ مار کر آگ جھاڑتے ہیں۔

فَالْمُغِيْـرَاتِ صُبْحًا (3)
پھر صبح کے وقت دھاوا کرتے ہیں۔

فَاَثَرْنَ بِهٖ نَقْعًا (4)
پھر اس وقت غبار اُڑاتے ہیں۔

فَوَسَطْنَ بِهٖ جَمْعًا (5)
پھر اس وقت دشمنوں کی جماعت میں جا گھستے ہیں۔

اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُـوْدٌ (6)
بے شک انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔۔ ( سورہ العادیات )

گھوڑے کو ذرا دیکھو وہ اپنے مالک کا کتنا وفادار ہے گر وہ اسے پہاڑوں پر لے جائے تو وہ پہاڑوں پر چڑھ جاتا ہے وہ چلتا ہے تو اس کے پاؤں سے چنگاریاں اڑتی ہیں جنگ ہو رہی ہو تلواریں چل رہی ہوں تیر چل رہے ہو لیکن اس کا مالک کہتا ہے اس میں جاؤ وہ چلا جاتا ہے وہ اپنے مالک کا کتنا وفادار ہے اللہ نے فرمایا :
اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُـوْدٌ
بے شک انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے
اے انسان تجھے کیا ہوگیا جانور بھی اپنے مالک کے وفادار ہیں لیکن تو کیوں نہیں؟؟ تیری وفا کہاں چلی گئی کتّا نجس جانور ہے شریعت نے جو احکام بیان کئے ہیں اس کی تعظیم اور تکریم لازم ہے تو اس میں کتے کا کیا قصور ہے مالک کی مرضی ہے جس کو حلال بنائیں جس کو حرام بنائیں کتے کا اپنا تو اس میں کوئی قصور نہیں ہے کہ وہ کتا ہے مگر وہ اللہ کی مخلوق تو ہے لیکن یہ کتا بھی اگر وفادار ہو جائے یہ چار ٹانگوں والا جب اللہ والوں کی خدمت میں آ جائے تو اللہ نے اس کتے کو بھی جنت میں انسانی شکل بلعم بن باعوراء کی صورت میں داخل فرمائے گا کیوں کہ اصحاب کہف کے کتے نے بھی تو اپنے مالکوں کی خدمت کی بے وفائی نہ کی جو اپنے رب کے ساتھ جڑ جائیں اور اپنا تعلق اس سے مضبوط کرلے جتنا مالک دے اس پر صبر کریں کبھی شکوہ نہ کرے اس پر ہمیشہ کرم ہی ہوتا ہے۔۔

یہ واقعہ اتنا حسین ہے کہ میرا دل چاہا کہ میں اسے بیان کروں یہ بات ہے اس عظیم ہستی کی جن کے سر منظوم سیرت النبی‏ ﷺ لکھنے کا سہرا جاتا ہے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری اپنا واقعہ لکھتے ہیں 71 سال کی عمر ہے لکھتے ہیں میں 71 سال کا شخص ہوں لیکن اللہ اور اس کے رسول‏ ﷺ کو گواہ بنا کر حاضر ناظر جان کر یہ تحریر لکھ رہا ہوں جس میں جھوٹ کا کوئی عنصر نہیں نہ میں نے کسی سے سنا ہے میں نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا حفیظ جالندھری وہ ہیں جنہوں نے شاہ نامہ اسلام لکھا فرماتے ہیں کہ بارہ سال میری عمر تھی اس بارہ سال کی عمر میں میرے خالو مجھے لے کر جلالپورجٹاں چلے گئے وہاں ان کے پیر و مرشد موجود تھے فرماتے ہیں مجھے بچپن ہی سے ثنا خوانی کا بہت شوق تھا میں حضور ‏ ﷺ کی ثنا خوانی کرتا تھا جب میرے خالو نے بتایا کہ یہ بچہ نعت پڑھتا ہے قاضی صاحب فرمانے لگے ہمیں بھی سناؤ جب میں نے نعت سنائی تو وہ نعت ان کو اتنی پسند آئی کہ جب بھی شام کو محفل سجتی وہ مجھے بلاتے کہتے کھڑے ہوکر نعت سناؤ اور میں نعت سناتا وقت یوں ہی گزرتا رہا ایک دن قاضی صاحب اپنے رنگ میں تھے فرمانے لگے کہ حفیظ آج تم لوگوں کی لکھی ہوئی نعتیں پڑھتے ہو ایک وقت آئے گا کہ زمانہ تمہاری لکھی ہوئی نعتیں پڑھے گا آپ فرماتے ہیں میں بچہ تھا مجھے اتنی سمجھ نہیں تھی کہ اس بات کا مطلب جان سکوں جب میں نے منظوم شاہنامہ اسلام سیرت النبی‏ ﷺ کو لکھا تو یہ تو پورے عالم میں پھیل گئی شاہنامہ اسلام سیرت النبی ‏ ﷺ کو منظوم انداز میں لکھنے کی سعادت آپکو حاصل ہوئی میں سمجھتا ہوں کہ ان کی بخشش کے لیے یہی کافی ہے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ اتنا بڑا کام ہے حضور کی محبت کا ہونا اتنی اہم بات ہے کہ ان کی بخشش اسی سے ہوجائے گی ان شاء اللہ۔۔
فرماتے ہیں کہ اسی طرح شب و روز گزر رہے تھے ایک دن ایسا ہوا کہ کچھ لوگ قاضی صاحب کے پاس آئے اور کہا حضور باہر خلق پریشان ہے خشک سالی کی سی کیفیت ہے بارش نہیں ہورہی آپ یہاں ٹھنڈے کمرے میں بیٹھے ہوئے کوئی تعویذ نہ سہی دعا ہی کر دیں قاضی صاحب مسکرائے اور فرمایا کہ آپ صاحبانِ علم و دانش ہیں وارثانِ مہراب و ممبر ہیں آپ کیوں نہیں دعا کرتے کہنے لگے ہم تو روز نماز استسقاء ادا کرتے ہیں آپ آتے ہی نہیں نہ اپنے مریدوں کو بھیجتے ہیں حجرے میں بیٹھے رہتے ہیں بڑے پیر بنتے ہیں دور دور سے لوگ آپ کے پاس آتے ہیں یہ جو ایک مشکل کی گھڑی ہے خانقاہوں سے ذرا نکل کر رسم شبیری ادا کیجئے فرمانے لگے کہ آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ کتوں سے کہیں کہ وہ دعا کریں وہ صاحبان غصہ میں آگئے ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہمیں تو ان کی زبان سمجھ نہیں آتی اگر آپ کو آتی ہے تو آپ دعا کرادیں قریبی لوگوں کو بلایا گیا اور کہا صبح ایک دعوت منعقد کی گئی ہے رات ہی رات میں حلوہ تیار کرو صبح سارا گاؤں ہی باہر آگیا حفیظ جالندھری اپنے دوستوں کے ساتھ مسجد کی چھت پر چلے گئے پیر صاحب تشریف لائے اور مٹی کے تھال جگہ جگہ پر رکھنا شروع کر دئیے اور اپنے ہاتھ سے حلوہ نکال کر رکھا حفیظ جالندھری فرماتے ہیں ان تھالوں کی تعداد ایک سو بائیس (١٢٢) تھی ابھی اس کام سے فارغ ہوئے کہ اتنے میں عجیب و غریب قسم کی آوازیں آنے لگیں تو ہم نے دیکھا کہ گلی میں مشرق کی جانب سے ڈھیر سارے کتے چلے آرہے ہیں ہر تھال کے اوپر تین تین کتے آگئے ایک گلی کا کتا جو اکثر دربار شریف کے باہر بیٹھا رہتا تھا وہ ان سب کو لے کر آیا تھا قاضی صاحب نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا میاں کالو! تم تو ہمارے اپنے ہو ہمارے ساتھ رہتے ہو اپنے ساتھیوں سے کہو کہ حلوہ کھائیں اور جب حلوہ کھا لیں پھر ہمارے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالی کی رحمت ہم پر نہیں برس رہی ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ کی اور مخلوق بھی ہلاک ہو رہی ہے اپنے ساتھیوں سے کہو کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں اس زمین پر بارش برسے اور اللہ کی مخلوق کو اس سے فائدہ پہنچے گلی کا کتا سب کے پاس سے ہوتا ہوا گیا کہ جیسے کچھ کہہ رہا ہو اور سب نے حلوہ کھانا شروع کر دیا جب تک وہ کھاتے رہیں حفیظ جالندھری فرماتے ہیں کہ وہ کتا کبھی یہاں سے وہاں جاتا اور وہاں سے یہاں جیسے وہ میزبانی کے فرائض انجام دے رہا ہو جب وہ کھا چکے تو اس کے بعد سب نے اپنا سر اوپر اٹھایا فرماتے ہیں عجیب انداز میں غرانے لگے یہ آواز ایسی تھی کہ جب بچپن میں کبھی رات کو کتے اس طرح آواز نکالتے تو دادی کہتی کتے آج رو رہے ہیں اللہ خیر کرے سب نے ایک ساتھ آوازیں نکالنا شروع کی تھوڑی دیر تک وہ اس طرح کرتے رہے اور اس کے بعد مشرق کی سمت سے آئے تھے اور مغرب کی سمت سے واپس چلے گئے جیسے ہی وہ گئے تو قاضی صاحب نے بھی ہاتھ اٹھا دیے اور دیر تک وہ بھی دعا کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی ریش مبارک میں بھی موتی چمکنے لگے آپ فرماتے ہیں کہ ابھی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ بارش برسنا شروع ہوگئی اور ایسی بارش برسی کہ سب جل تھل ہو گیا لوگ بڑی مشکل سے بھاگے جب بارش ہو رہی تھی میں اندر آیا تو دیکھا وہی صاحب جو کل گفتگو کر رہے تھے قاضی صاحب ان کو بھی حلوہ کھلا رہے ہیں اگر نیک مقصد کے لیے کتے بھی جمع ہوجائیں تو وہ بھی آپس میں نہیں لڑتے۔۔

ہم تو پھر اشرف المخلوقات ہیں اللہ تو جانوروں کی دعا بھی رد نہیں کرتا اگر ہم کسی مقصد کے لیے اکھٹے ہوں آپس میں نہ لڑیں رب کی بارگاہ میں دعا کریں تو دعا کیوں کر قبول نہ ہو۔۔
ایک جگہ نماز استسقاء ادا کی جا رہی تھی تو سارے لوگ اس میدان میں جمع ہونا شروع ہوئے تو ایک بچہ چھتری لے کر آ گیا لوگوں نے کہا ابھی سے چھتری کہا جہاں خدا کے بندے جمع ہوں اور دعا کریں تو یقیناً بارش ہوگی اور میں بھیگنے سے بچنے کے لیے چھتری لایا ہوں یہ ہے یقین کہ دعا جب بھی کریں یقین سے کریں۔۔
اب دیکھیے بعض لوگوں کے ذہن میں آئے گا کہ یہ آج کتوں والی بات کیوں کر رہے دعا سب سے کرانی چاہیے
حضور کی حدیث ہے ‏ ﷺ کے !
بنی اسرائیل کی ایک عورت فاحشا تھی ایک مرتبہ اسے پیاس لگی تو کنویں سے پانی نکالا دیکھا ایک کتا بھی زبان نکال کر بیٹھا ہوا ہے اسے بڑا ترس آیا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کے اس کتے کو پلایا جیسے ہی اس نے پانی پیا اللہ تبارک و تعالی نے اس سبب سے اس خاتون کی بخشش فرما دی اللہ کی مخلوق کو بھی نہیں ستانا چاہیے ان کا بھی خیال کرنا چاہیے اللہ والے یہی سبق دیتے ہیں کہ انسانوں کی تعظیم و تکریم تو کریں ہی کریں لیکن اللہ کی جو دیگر مخلوقات ہیں ان کو بھی نہ چھوڑیں ان کا بھی خیال کیا کریں۔۔۔
کیا پتا کس کی دعا لگ جائے
ایک بہت اچھے اور بڑے بزرگ گزرے ہیں ہزار سال پہلے علامہ ابو بکر بن خلف انھونے ایک کتاب لکھی فضل الکلاب جس میں انہوں نے کتوں کی صفات بیان کی ہیں۔۔۔
امام حسن بصری رحمۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کتوں میں دس صفات ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک صفت بھی کسی انسان میں پیدا ہو جائے تو اسے بزرگی حاصل ہو جائے۔۔

١-قناعت
یعنی جو مل جائے اس پر شکر نہ ملے تو صبر۔۔
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ میرا ایک مرید آیا تو میں نے کہا اپنے حالات بتاو کہا حضور حال یہ ہے کہ کچھ مل جائے تو شکر کرتے ہیں نہ ملے تو صبر کرتے ہیں مولائے روم نے فرمایا یہ کام تو ہمارے شہر کے کتے بھی کرتے ہیں یہ کونسی بڑی بات ہے ہیں کہنے لگا حضور آپ ہی بتائیں پھر کیا کرنا چاہیے فرمایا کہ مل جائے اور ضرورت سے سوا ہو تو بانٹ دو اور نہ ملے تو شکر ادا کرو یہ درجات ہیں یہ عام لوگوں کے لیے بات نہیں ہے یہ خاص کے لئے ہے۔۔

٢- کتا اکثر بھوکا رہتا ہے اور یہ صالحین کی علامت ہے۔۔

٣-کوئئ کتا اس پر زور کی وجہ سے غالب آ جائے تو یہ اپنی جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ہے یہ راضی رہنے والوں کی علامت ہے ۔۔

استاد محترم واصف علی واصف فرماتے ہیں:
“بڑی منزلوں کے مسافر چھوٹی چیزوں میں الجھا نہیں کرتے”

٤- اس کا مالک اسے مارے بھی تو اسے چھوڑ کر نہیں جاتا یہ صادقین کی علامت ہے۔۔

٥-اگر مالک کھانا کھا رہا ہو تو باجود قوت و طاقت کے کھانا نہیں چھینتا دور سے صرف دیکھتا ہے جو بچ جائے اس پر اکتفاء کرتا ہے یہ مسکین کی علامت ہے۔۔

٦-جب مالک اپنے گھر میں ہو تو وہ دور دروازے کی جوتیوں کے پاس بیٹھ جاتا ہے ادنی جگہ پر بھی راضی ہو جاتا ہے یہ متوفقین کی علامت ہے۔۔

٧- دنیا میں اس کا اپنا کوئی گھر نہیں یہ متوکلین کی علامت ہے۔۔

٨- رات کو بہت کم سوتا ہے یہ محبین کی علامت ہے۔۔

٩-جب مرتا ہے تو اسکی کوئی میراث نہیں ہوتی یہ زاہدین کی علامت ہے۔۔

١٠- اگر مالک مارے اور بھگا دے تو ناراض ہوکر زیادہ دور نہیں جاتا دوبارہ ٹکرا ڈالا جائے تو واپس آجاتا ہے یہ خاشین کی علامت ہے

اس میں سے ایک صفت بھی انسان میں پیدا ہو جائے کہ اگر مالک آزمائے تو در چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے مالک حقیقی سے کبھی دور نہیں ہونا چاہیے مالک جتنا دے اس پر راضی ہو جانا چاہیے۔۔
اسی بات کو بابا بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
کہ جس دل اندر عشق نہ رچیا
کتے اس تو چنگے
او مالک دے گھر راکھی دیں دے
صابر بھوکے ننگے
مالک دا گھر نیو چھڈ دے
ہمیں مارو سو سو جوتے
چل یار منا لے تے او بازی لے گئے کتے

ہمیں چاہئے کہ اللہ رب العزت پر کامل یقین کریں اس ذات سے اپنا تعلق مضبوط کریں ہم ایسے بن جائے جیسا اللہ خود چاہتا ہے اللہ تعالیٰ ہمارا شمار محبین میں فرمائے آمین