نبیاء کرام علیہم السلام سے بکریاں چرانے کا کام کیوں لیا گیا؟

ہمیں سیرت میں بہت سے حکمت کے پھول نظر آتے ہیں اور اس سے سیکھنے کو بھی بہت کچھ ملتا ہے۔۔

پہلے دور میں عرب کے صاحبِ حیثیت شہری اپنے بچّوں کو ذہنی و جسمانی تربیت اور خالص عربی زبان سیکھنے کی غرض سے ایک خاص مدّت تک قبائل کی خواتین کے حوالے کر دیا کرتے تھے۔یہ عورتیں سال میں دو مرتبہ شہروں کا رُخ کرتیں اور نومولود بچّوں کو مناسب اُجرت پر اپنے ساتھ لے جاتیں۔ ان ہی عورتوں میں بنو سعد کی ایک معزّز و محترم خاتون، حضرت حلیمہ سعدیہؓ بھی تھیں، جنہیں نبی آخرالزّماں، سرورِ کائنات، نبی کریمﷺ کو ایّامِ رضاعت میں اپنی آغوش میں رکھنے اور دو سال تک دُودھ پلانے کا شرفِ عظیم نصیب ہوا۔

حلیمہ سعدیہؓ کہتی ہیں کہ’’ جب مَیں نے آمنہ کے لعل کو گود میں لیا اور اپنے ڈیرے پر آئی، تو عجیب سا سکون اور برکتیں تھیں میرا جو بچّہ بھوک سے ہر وقت روتا رہتا تھا، آج پہلی مرتبہ اُس نے اور آنحضرتﷺ نے بھی شکم سیر ہو کر دُودھ پیا، اس کے باوجود دُودھ کم نہ ہوا۔ شوہر کی نظر اونٹنی پر پڑی، تو اُس کے سوکھے تَھن دُودھ سے لب ریز تھے۔ واپسی کے سفر پر میری لاغر گدھی نے اپنی تیز رفتاری سے سب کو حیران کر دیا۔ میری ساتھی عورتیں رَشک و حسد میں مبتلا ہو کر مجھ پر آوازیں کَسنے لگیں۔جب ہم گھر پہنچے، تو میرے گھر پر اللہ کی برکتوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ ہمارا پورا علاقہ قحط زدہ تھا اور لوگ بدحال تھے، لیکن میرے گھر والے، میرے مال مویشی دُودھ اور چارے سے آسودہ حال تھے۔ ہم ہر وقت اللہ کا شُکر ادا کرتے۔ دو سال بعد مَیں نے آنحضرتﷺ کا دُودھ چھڑوا دیا۔ اپنے مضبوط قد و قامت کی بنا پر آپﷺ چار سال کے لگتے تھے۔ ہم اُنہیں حضرت آمنہ ؓکے پاس لے گئے۔ اُس زمانے میں مکّہ بیماری کی زَد میں تھا، لہٰذا ہم نے بے حد اصرار کر کے اُنہیں دوبارہ اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت لے لی۔‘‘ تو آپ نے منع نہ فرمایا بلکہ کہا ضرور لے جاؤ اور دائی حلیمہ جھومتے جھومتے واپس اپنے قبیلے بنو سعد لے آئیں۔۔

ابھی آپ کی عمر مبارک دو برس تھی تو آپکی رضاعی بہن شیما نے کہا کہ انھیں میرے ساتھ بکریاں چرانے بھیج دیا کریں دائی حلیمہ نے فرمایا اتنے چھوئے بچے کو تم کیسے سنبھالو گی وہ فرمانے لگی اصل معاملہ یہ ہے کہ میں آپ کو بتائے بغیر انھیں ایک دن لے گئی تھی تو میں نے دیکھا کہ جہاں یہ جاتے بکریاں وہی جمع ہو جاتیں اور وہی چرتی رہتی اور جب مجھے بھوک لگتی تو میں ان (سرورِ کائنات) کے چہرے کی زیارت کرلیتی اور میری بھوک مٹ جاتی ۔۔

دائی حلیمہ فرماتی وہاں تو گرمی بہت ہے تو شیما نے کہا گرمی بھی نہیں لگتی مَیں نے دیکھا کہ ایک بادل کا ٹکڑا آنحضرتﷺ پر سایۂ فگن رہتا ہے ۔ جب آپﷺ ٹھہر جاتے، تو وہ بھی ٹھہر جاتا اور جب آپﷺ چلتے، تو وہ بھی چلنے لگتا۔ آپ نے کہا اچھا چلو لے جاؤ۔۔

 

جب آپکی عمر مبارک بڑھی تو آپﷺ خود بھی بکریاں چرانے لگے بکریاں چرانا سنت انبیاء ہے اور میرے آقا کریم کی سنت ہے۔۔

بکریاں چرانے میں سب سے ✨

پہلی حکمت یہ ہے کہ جو بکریاں چراتا ہے اس میں صبر آجاتا ہے کیونکہ جب تک بکریوں کا پیٹ نہیں بھرتا وہ کھڑا رہتا ہے
دوسری بات اسمیں عاجزی پیدا ہوتی ہے کیونکہ وہ کہی بھی لیٹ بیٹھ جاتا ہے

✨

تیسری چیز شجاعت و بہادری کیونکہ جس جگہ بکریاں چرا رہا ہے وہ ویران ہوتی ہے اور اکیلا ہوتا ہے اگر کوئی جانور آ جائے تو اسکا مقابلہ بھی کرتا ہے اور اپنی بکریوں کی حفاظت بھی کرتا ہے ۔۔

✨

شفقت و محبت بھی پیدا ہوتی ہے کہ اگر بکری بیمار ہوگئی تو اس کا خیال بھی رکھنا ہے۔۔

اسی طرح جو ریوڑ کو سنبھال سکتا ہے اسے عہدے پر بٹھایا جاتا ہے کیونکہ جو جانور کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا وہ انسانوں کو کیسے تکلیف میں دیکھے گا یہ سیکھنے کا انعام ہے۔۔

ابھی آپﷺ چوتھے یا پانچویں سال میں تھے اور بکریاں چرا رہے تھے اسی اثنا میں کچھ لوگ آئے اور حضور ﷺ کو اٹھایا اور پہاڑ کہ طرف چل دئے۔ جب بہن، بھائیوں نے یہ منظر دیکھا تو کہا اسے چھوڑ دو یہ ہمارے قبیلے کا نہیں ہے پھر کہا یہ یتیم ہے انھونے پھر نہیں سنا ان سب میں سے ایک بچے نے کہا دیکھو ہمارے بھائی کو قتل نہ کرو اگر تمھیں قتل کرنا ہے تو ہم میں سے کسی کو بھی قتل کردو ایک طرف برادران یوسف علیہ السلام تھے کہ اپنے بھائی کو کنویں میں ڈال رہے تھے اور ایک طرف یہ چند بچے ہیں جو قربان ہونے کو تیار ہیں۔۔

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرائیل امینؑ تشریف لائے۔ اُنہوں نے آپﷺ کو لِٹایا، سینہ چاک کر کے دِل باہر نکالا، اُسے سونے کے طشت میں آبِ زَم زَم سے دھویا اور پھر دوبارہ اپنے مقام پر رکھ کر سینہ بند کر دیا۔

دوسری جانب بچوں نے دیکھا کہ انھوں نے کوئی بات نہ مانی تو بچے چیختے چلّاتے گھر پہنچے اور ماں کو بتایا کہ کسی نے (حضرت)محمّد(ﷺ) کو قتل کر دیا ہے(نعوذباللہ)۔ حلیمہؓ اور اُن کے شوہر حارث دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے، تو دیکھا کہ آپﷺ صحیح سلامت بیٹھے ہیں، لیکن آپﷺ کا رنگ اُترا تھا پھر سب نے باتیں کرنا شروع کر دیں کہ کہی کوئی دوسری مخلوق کا معاملہ نہ ہو آخری میں یہ فیصلہ ہوا کہ انھیں ان کی والدہ کہ پاس واپس بھیج دیا جائے اور یوں چار یا پانچ سال کی عمر میں جان دوعالم ﷺ مکہ واپس تشریف لے آئے بی بی آمنہ نے پوچھا اے حلیمہ تم تو بہت چاہ سے لے گئیں تھی اتنی جلدی واپس کیوں لے آئیں آپ نے سارا واقعہ بیان فرمایا اور کہا ہم ڈر گئے ہیں بی بی آمنہ فرمانے لگی ڈرنے کی کوئی بات نہیں شیطان میرے بیٹے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کہا کہ اے حلیمہ جب انکی ﷺ ولادت ہوئی تو اس کے نور میں میں نے شام کے بڑے بڑے محلات دیکھے ۔۔ اس کے بعد آپ ﷺ اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ مکہ میں رہنے لگے۔

 

جب حضور ﷺ کی عمر مبارک چھے سال ہوئی تو سیدہ آمنہ نے یثرب جانے کا فیصلہ کیا حضرت عبد المطلب نے اجازت دی تو حضور ﷺ اور ام ایمن کے ساتھ سیدہ آمنہ مکہ مکرمہ سے یثرب پہنچی ایک مہینہ قیام کیا تو ایک یہودی نے حضور ﷺ کو دیکھا اور اپنے سرداروں کو جاکر بتلایا کہ اس بچے میں ساری وہ نشانیاں موجود ہیں اور ایک دن یہ ضرور ہجرت کرکے مدینہ آئیں گا بی بی آمنہ کو کھٹکا ہوا کہ کہی یہ آپ ﷺ کونقصان نہ پہنچائیں۔ چنانچہ آپ نے اپنا قیام مختصر کیااور ایک ماہ تک قیام کرکے واپس مکہ روانہ ہوئیں، لیکن ابھی اثنائے راہ میں تھیں کہ بیماری نے آلیا۔ پھر یہ بیماری شدت اختیار کرتی گئی، یہاں تک کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام ابوا پہنچ کر رحلت کرگئیں۔ اور یوں ظاہری طور پر اور دنیاوی اعتبار سےحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ پھر تنہا رہ گئے۔ بوڑھے دادا عبدالمطلب اپنے پوتے کو ابوا سے لے کر مکہ پہنچے۔ ان کا دل اپنے اس یتیم پوتے کی محبت و شفقت کے جذبات سے لبریز تھا کیونکہ اب اسے ایک نیا زخم لگا تھا جس نے پرانے زخموں کو کرید دیا تھا۔ دادا کے جذبات میں پوتے کے لئے ایسی رقت تھی کہ ان کی اپنی حقیقی اولاد میں سے بھی کسی کے لئے ایسی رقت نہ تھی۔ چنانچہ قسمت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی کے جس صحرا میں لا کھڑا کیا تھا، عبدالمطلب اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر چاہتے اور بڑوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کرتے تھے۔

اور آپ کی پرورش ام ایمن نے بھی فرمائی جو سیاہ فام خاتون تھیں ایک دن حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کوکسی نے کہا کہ تم کالی ماں کے بیٹے تو آپ رضی اللہ عنہ مسجد کہ ایک کونے میں بیٹھ کر دونگا لگے اتنی دیر میں حضور نبی ﷺ تشریف لے آئے اور فرمایا اے بلال کیوں روتے ہو آپ نے سارا ماجرہ بیان کیا “تو یتیموں کے والیﷺ نے بہت شفقت سے فرمایا بلال میری بھی دو مائیں ہیں ایک وہ فوری اور ایک سیاہ فام ایک وہ جس نے میری پرورش کی اور ایک وہ جس نے مجھے جنا”
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور ﷺ نے مجھے اس محبت سے دلاسہ دیا کہ میں مطمیئن ہوگیا جان دوعالم ﷺ کی ذات تو موجود ہی تفریق کو مٹانے کے لیے ہے۔۔

مکہ مکرمہ میں حضور ﷺ تشریف فرما ہیں دائی حلیمہ تشریف لاتی ہیں تو آپ نشست سے کھڑے ہوجاتے ہیں کپڑا بچھایا اور آپ کو اس پر بٹھایا دائی حلیمہ فرمانے لگی ہمارے قبیلے میں قحط ہے جان دوعالم ﷺ نے چالیس بکریاں عطاء فرمائیں اور ایک اونٹ بھی عطاء فرمایا آپ علیہ سلام نے ہمیشہ اپنی والدہ کی تعظیم فرمائی بہت عزتوں سے نوازا والدین کا اکرام جان دوعالم ﷺ نے سیکھایا۔۔

اسی طرح جنگ حنین میں ہزاروں قیدی لائے گئے اور مال غنیمت بھی کثیر آیا آپ ﷺ خیمے میں تشریف فرما تھا خبر پہنچائی گئی کہ حضور باہر ایک عورت آئی ہے اور کہتی ہے کہ آپ کے سردار سے ملنا ہے فرمایا کون ہے کہا حضور کہتی ہے میں آپکی رضاعی بہن ہوں اور میرا نام شیمہ ہے آپ علیہ السلام نے جب آپ کا نام سنا تو اپنی چادر بچھا دی بہن کو بیٹھایا بچپن کی باتیں شروع ہوگئیں حضور ﷺ نے فرمایا کہ شیمہ میں ایک بات کروں تم مدینہ میں رہ جاؤ میں گھر میں تمھارے لیے انتظام کرتا ہوں اور تاعمر تمھاری کفالت کی بھی زمہ داری اٹھاتا ہوں فرمانے لگی حضور میں اپنے قبیلے کے ساتھ واپس جانا چاہتی ہوں آپ علیہ السلام نے فرمایا تم آزاد ہو شیمہ فرمانے لگیں حضور ﷺ اگر میں اکیلی یہاں سے نکلی تو میرا قبیلہ کہے گا کہ بھائی نے صرف بہن کو چھوڑ دیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا چاہتی ہو؟
فرماتی ہیں میرے ساتھ میرے قبیلے کو بھی روانہ کردیں سرور کائنات نے پورے قبیلے کو ساتھ روانہ کر دیا۔۔

آج ہمارے معاشرے میں کوئی اپنی بہن کو نہیں پوچھتا رضاعی بہن کہ کفالت کیسے کریگا جب بھی اپنی بہن کے گھر جائیں تو خالی ہاتھ نہ جائیں جب بہن گھر آئے تو اسکی لاج رکھیں۔۔

یہ ادب حضور ﷺ نے سیکھایا رشتوں کا تقدس رحمت للعالمین ﷺ نے سکھایا اللہ کریم ہمیں نبی کریم ﷺ سے سچی محبت عطاء فرمائے سچی غلامی عطاء فرمائے اور حضور ﷺ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے

یا خدا جسم میں جب تک میری جان رہے..!!
تجھ پہ صدقے تیرے محبوب پر قربان رہے..!!
کچھ رہے یا نہ رہے..!!پر یہ دعا ہے کہ امیر
نزع کے وقت سلامت میرا ایمان رہے ۔۔!!