کفار کا چھپ کر قرآن سننا
ایک نارہ ہمارے معاشرے میں لگایا جاتا ہے اور لگانا بھی چاہئے کہ
غلامی رسول‏ ﷺ میں موت بھی قبول ہے
یہاں ایک سوال یہ بھی ہے غلامی رسول ‏ ﷺ میں موت قبول ہے کہ بجائے یہ کیوں نہیں کہتے کہ غلامی رسول ‏ ﷺ میں زندگی قبول ہے ہم غلامی رسول میں مرنے کے لئے تیار ہیں تو حضور کی سیرت کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے کیوں تیار نہیں؟ ۔۔۔

جب بھی ہم کوئی مشین خریدتے ہیں اس کے ساتھ ہدایات کہ لیے ایک کتاب آتی ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہو جائے تو اسے دیکھ کر مشین کو درست کر لیا جائے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کائنات میں بھیجا ایک کتاب بھی ساتھ میں دی اور صاحب کتاب ،صاحب قرآن نبی کریم‏ جان دوعالم ﷺ کو بھی بھیجا جنھوں اس پر عمل کرکے ہمیں دیکھایا۔۔۔
آپ ﷺ کی حیات مبارکہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے اس کے باجود نہ ہم قرآن کریم کا فہم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی

حضور ‏ ﷺ کی سیرت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں یقیناً ہماری اصل ناکامیوں کا سبب ہی یہی ہے۔۔
ایک رات آقا کریم جان دوعالم ﷺ پچھلے پہر اٹھے اور جاکر ایک جگہ بیٹھ گئے میرے حضور جان دوعالم ﷺ نے تلاوت شروع کی تلاوت کر بھی صحاب قرآن رہے ہیں جس پر سورہ یٰسن نازل ہوئی جب وہ سورہ یٰسن پڑھتے ہونگے تو کیا منظر ہوتا ہوگا۔۔۔

قرآن کریم نے جیسے یایھا المزمل کہا جب انھونے خود مزمل پڑھی ہوگی ۔۔

جب والضحیٰ والے چہرے نے سورہ الضحیٰ پڑھی ہوگی۔۔
والیل کی زلفوں والوں نے جب والیل کی تلاوت کی ہوگی۔۔
تو کیا سماء بندھا ہوگا جب وہ آواز گونجی اور ابوجہل کے کانوں میں پڑی وہ بیدار ہوگیا اور آواز کے تعاقب میں چھپ کر تلاوت سننا شروع کی اور اس کا مقصد کلام کے اندر سے ایسے الفاظ تلاش کرنا کہ صبح کہہ سکے کہ اس میں یہ عیب ہے۔۔

ابو سفیان اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے وہ بھی ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ کر قرآن سننے لگے۔۔

‏اخنس بن شُریک بھی سردار تھا وہ بھی تلاوت سننے آگیا ۔۔
اب قرآن میرے حضور جان دوعالم ﷺ پڑھ رہے ہیں۔۔

قرآن نے خود فرمایا:
لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۲۱)
اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تم اسے جھکا ہوا، اللہ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ سوچیں۔۔

‏یہ آیت تلاوت کرنا تھی کہ سننے والوں کی دلی کیفیت بدلنے لگی یہاں تک کہ صبح ہوگئی حضور جان دوعالم ﷺ نے تلاوت موقوف کی لوگ اپنی جگہ سے نکل کر واپس جانے لگے کہ اچانک تینوں ایک مرکز پر اکھٹے ہوگئے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہوئے اور تینوں نے فیصلہ کیا کہ قوم کو کچھ پتہ نہ چلے کہ ہم نے قرآن سنا ہے اور نہ ہی اب یہاں کوئی قرآن سننے دوبارہ آئے گا۔۔
دوسری رات پھر جان دوعالم ﷺ نے تلاوت شروع کی آخر ۔۔۔
یہ کتابِ انقلاب ہے تو وہ پیغامِ انقلاب ہیں

یہ قرآن آنے والا، وہ پڑھ کر سنانے والا
یہ راہ بتانے والا ، وہ راہ دیکھانے والا
قیامت تک اسکی تلاوت جاری ،
اور قیامت تک انکی حکومت جاری
قیامت تک اس کی قرأت جاری
قیامت تک انکی نبوت جاری
جس نے اس قرآن کی تلاوت کی وہ قاری بن گیا
اور جس نے اُس قرآن کی زیارت کی صحابی بن گیا

تلاوتِ قرآن میں اتنا سرور آیا کہ ابو جہل نے سوچا وہ دونوں تو نہیں آئیں گے میں سن لیتا ہوں، ابوسفیان اور اخنس نے بھی یہی سوچا تلاوت سنی اور پھر اسی جگہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ ہوگیا پھر فیصلہ کیا اب کوئی نہیں آئے گا۔۔

تیسری رات پھر جان دوعالم ﷺ نے تلاوت شروع کی آواز پہنچی تینوں پھر نکل آئے صبح پھر ملے تو کہا یہ تو ہماری عادت پختہ ہو رہی ہے یہ نہ ہو ہم اس سحر میں مبتلا ہو جائیں آج پختہ عہد کرو کہ آج کے بعد ہم میں سے کوئی نہیں آئے گا اور جو عہد شکنی کرے گا اسے سزا دی جائے گی ۔۔

اخنس بن شریک نے گھر جاکر ٹنڈا اٹھایا اور ابو سفیان کے گھر پہنچا ابو سفیان باہر آئے کہا یہ جو تین دن سے ہم اس کلام کے بارے میں ہم سن رہے ہیں مجھے بتاؤ میں بےچین ہوں

بتاؤ یہ ہے کلام کیا ہے ؟
ابو سفیان نے کہا یہ مجھے کسی مخلوق کا کلام تو نہیں لگتا اور کچھ باتیں تو مجھے سمجھ آئی ہیں اور کچھ مجھے سمجھ نہیں آئی اخنس نے ابو سفیان کا ہاتھ پکڑا اور ابو جہل کے گھر کی طرف چل دیا ابو جہل سے پوچھا گیا کہ اس تلاوت کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے میرے تو دل کی کیفیت بدل گئی ہے مجھے تو یہ حق لگتا ہے ۔۔۔
ابو جہل نے کہا بات تمھاری ٹھیک ہے لیکن ہم قریش کی برابری پر تھے وہ بھی خیرات کرتے ، حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں ہم بھی یہ سب کرتے ہیں اگر نبوت ان کی طرف آگئی تو یہ ہم سے برتر ہوجائیں گے میں اس کی حمایت نہیں کرتا۔۔
اخنس نے کہا تم لوگ جاتے ہو جاؤ نہیں جاتے نہ جاؤ میں تو جاؤ گا
ابو جہل نے دیکھا کہ ایک ساتھی ہم سے جدا ہورہا ہے تو بیٹھایا اور کہا تم اپنے آباؤ اجداد کا دین چھوڑ دو گے قوم کیا کہے گی ، آخر کار وہ رک گیا۔۔

ہدایت صرف اسے ملتی ہے جس پر اللہ کا کرم ہو ۔۔
مسجد سے آواز آرہی ہے۔۔
حی علی الفلاح حی علی الصلاۃ
جس کا گھر برابر میں ہے وہ نہیں آرہا کیونکہ اسے توفیق نہیں مل رہی دلوں کو بدلنا اللہ کا کام ہے۔۔
ابو جہل معجزات دیکھتا رہا ابو لہب دیکھتا رہا ایمان نصیب نہیں ہوا۔۔

جب تک اللہ نہ چاہے کسی کو ہدایت نہیں ملتی اور ہدایت ایک ایسی چیز ہے کہ جو مانگتا ہے اسے میسر آتی ہے ہوسکتا ہے ہم دنیاوی چیزیں مانگ رہے ہوں اور وہ نہ ملیں لیکن ہدایت ایسی شے ہے کہ مانگنے سے ایسا ممکن ہی نہیں کی نہ ملے اللہ کریم ہم سب کو صراط مستقیم کا مسافر بنائے آمین

الھم انی اسئلک ھدٰی